آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا سفر

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا سفر

Spread the love

 

صلی اللہ علی حبیبہ محمد وآلہ وسلّم

آج میں محبت کے جس سفر کو بیان کرنا چاہتی ہوں،وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا سفر ہے۔ وہ جو شمس الضحیٰ ، بدر الدجیٰ ہیں ۔ شمس العارفین ،راحت العاشقین اور رحمت اللعالمین ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے آغاز کروں ۔ میرے قلم میں ایسی تاثیر نہ الفاظ پر ایسا عبور کہ جس ہستی کی بات کر رہی ہوں ، ان کے شایان شان الفاظ کا انتخاب کر سکوں ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ بیج بونے سے لے کر کونپل پھوٹنے تک کی روداد ہے۔ مجھے اپنے اس احساس کو بیان کرنے کے لیے لفاظی کی ضرورت نہیں ، مجھے تو بس اپنے محسوسات کو پرکھنا ہے۔

بچپن میں جب محبت کے اس سفر سے شناسائی نہ تھی تو اکثر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے بارے میں سوچ کر متاثر ہوتی رہتی۔ کچا ذہن تھا، دل ہی دل میں موازنہ کرتی رہتی ۔ (مردوں کو زندہ کرنا۔ اندھوں کو بینائی ملنا اور حضرت عیسیٰ کے بے شمار دوسرے معجزات ) تب تک یہ احساس نہیں تھا کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو آمد ہی سب سےبڑا معجزہ ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو انسان پر بے پایاں نوازشات اور مہربانیاں کیں ، ہمیں ہر طرح کی نعمتیں عطا کیں ، جن میں کھانا پینا،عقل ودانش، والدین، بہن بھائی، اولاد وغیرہ شامل ہیں ، آللہ تعالیٰ نے یہ سب عطا کرنے سے لے کر انسان کو اشرف المخلوقات کی بزرگی عطا کرنے تک کسی نعمت کا کوئی احسان نہیں جتلایا۔ سوائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجنے کی نعمت پر ۔ قرآن کی سورۃ آل عمران میں ذکر آتا ہے ۔
,,بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے عظمت والا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھیجا۔،،

وقت کچھ اور سرکا۔ بچپن لڑکپن میں بدلا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات ڈھونڈنے شروع کئے۔ اور ایک مکمل فہرست مرتب کر لی۔ بے شک محبت کے اس ننھے سے پودے کو تناور درخت بننے کی طرف یہ پہلا قدم تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات جو مختلف کتابوں سے، اسلامی کہانیوں سے اکھٹے کئے گئے تھے۔ میرا چھوٹا سا ذہن اور چھوٹی عمر جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات پڑھ کر سرشاری کی کیفیت میں آ گئی ۔ موازنے کے اس عمل کے دوران میرے شعور نے کروٹ لی اور میں اپنے پہلے خیال پر پشیمان نظر آنے لگی۔ اب دل کی صورتحال پہلے سے یکسر مختلف تھی ۔ بچپن سے ہی گھر میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے موضوع پر والدین کی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہی تھی۔

وقت گزرتا گیا ،اس گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ سوچ اور خیال میں پختگی آئی ۔ ہوا یوں کہ کچھ سال بعد ایک ادارے میں معلمہ کے فرائض سر انجام دینے لگی۔ اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا رنگ گہرا ہوتا چلا گیا۔ پتہ چلا کہ وہ تو سراپا کرم ہیں۔ ہوا یوں کہ سکول کی پرنسپل نے ایک نئی شرط عائد کر دی کہ جو بھی نظم ،غزل پڑھائی جاۓگی ، وہ طالب علموں کو ترنم سے سنائی جاۓ گی ۔ اور پہلے وہ اساتذہ سے خود سنیں گی۔ حیرت کی بات ہے نا ۔ گانا ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا۔ مجھے آج بھی یاد ہے ۔ میں نے دل میں اللہ سے مدد مانگی اور نصاب میں شامل پڑھنے کے لیے ایک نعت کا انتخاب کیا ۔
شروع کرنے سے پہلے میں نے بڑے جذب کے عالم میں,, الصلواۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ،، پڑھا ۔ بلکہ ساتھی ٹیچر سے بھی کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ تم بھی یوں پڑھ کے آغاز کرنا۔ پھر جو ہو سو ہو۔

٫٫سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی،،
میں آنکھیں بند کئے پڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ آنکھیں کھولیں تو محترمہ پرنسپل صاحبہ کی آنکھیں نم تھیں ۔ کہ اس قدر سوز اور اس قدر تاثیر کیسے ہے تمہارے پڑھنے میں ۔ مجھے تو اتنا معلوم تھا کہ میں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارا تھا، کرم فرمائی کیسے نہ ہوتی۔
اسی طرح ایک بارآقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کچھ اشعار اور احادیث کے ساتھ نعتوں کا انتخاب کرنا تھا۔ کمپیئرنگ کے لیے مواد اکھٹا کرتے ہوئے بہت تحقیق کی ضرورت تھی۔ اس سارے عمل کے دوران میں بہت خوبصورت کیفیات میں گھری رہی ۔ مختلف درود اور قصیدے ڈھونڈے، اس طرح ساتھ ساتھ ان جلیل القدر ہستیوں سے بھی آشنائی ہوتی رہی۔ جن کے یہ کلام تھے ۔ خاص طور پر حسان بن ثابت ( واحسن منک لم ترقط عینی)
ترجمہ: میری آنکھ نے آپ جیسا حسین دیکھا نہیں ہے (یا رسول اللہ)
امام بوصیری قصیدہ بردہ شریف کے خالق۔ اور
سعدی شیرازی ( بلغ العلی بکمالہ)

اس دوران درود پاک اکثر ہی زبان پر رہتا۔ مجھے بار بار یہ حدیث یاد آتی کہ
٫٫بخیل ہے وہ شخص کہ جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے،،
سو میں نے درود پاک کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا ۔ میں کچھ عرصہ پہلے تک ایک نعت شریف کے الفاظ پڑھتے ہوئے رونے لگتی تھی۔ آنسو گلے میں اٹک جاتے، لفظ ادا نہیں کر پاتی تھی ۔
,,چوم لوں خوشبوئے گیسوئے محمد

وہ سیاہ زلف نہیں ،جس کے مقابل یہ بنفشہ، یہ سیئوتی ، یہ چنبیلی، یہ گل لالہ و چمپا کا نکھار،،
درود شریف ورد زباں ہو تو آپ کے اندر باہر کی کیفیات بدلی ہوتیں ۔ خُوشبوئیں چہار سو پھیلی ہوتیں، اور ان میں سے ایک بھی خوشبو کسی دنیاوی خوشبو کے مماثل بھی نہیں ۔ مجھے یاد آیا کہ روضہ رسول پر کام کرنے والے ایک فرد کا بھی یہی کہنا تھا کہ قبر اطہر سے مختلف خوشبوؤں کی لپٹیں آتی رہتی ہیں اور ہر بار خوشبو پہلے سے مختلف ہوتی ہے۔ یہاں مجھے جوش ملیح ابادی کی کتاب میں شامل ان کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ، جاگنے پر کمرہ خوشبو سے معطر ملا تھا۔

اور پھر جب مجھے سیرت پڑھانے کا موقع ملا تو میں اپنے بچپن کے خیالات پر شرمندگی محسوس کیا کرتی ۔ میں نے تو ذات اقدس صلی اللہ علیہ کو ہی سب سے بڑا معجزہ پایا۔وہ جو سید المرسلین ، خاتم النبیین ہوتے ہوئے بھی فقراء وغرباء سے، مساکین سے محبت رکھنے والے تھے۔ میں نم آنکھوں سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے تابناک موتی طلباء تک پہنچاتی کہ جن کی تابانی سے دل روشن ہو جاتا اور وجود جگمگا اٹھتا۔ ہماری ہمارے نبی سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خالی خولی محبت کا دم نہ بھرتے رہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات جیسے کہ محبت ، اچھا اخلاق، نرمی، ہمدردی ،عاجزی، اور درگزر کرنے کی صفت اپنائیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور یہ محبت ہماری رگ رگ میں دوڑتی ہے۔ اس کے اظہار کا بہترین طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور آپ سرکار کے مشن کی ترویج ہے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان پر ہم سب کو قائم رکھے اور اسی پر موت آۓ ، اور حوض کوثر سے نبی کریم کے ہاتھوں سے آب کوثر نصیب ہو۔
,,و رفعنا لک ذکرک ،،
لاکھوں کروڑوں ،درود و سلام پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ پر کہ
عشقِ رسولِ پاک میں گر آنکھ نم نہیں
تو پھر یہ بدنصیبی کو سامان کم نہیں
( شجاع)

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 103

No votes so far! Be the first to rate this post.