اربعین: کربلا سے وفا کا پیغام
بچپن کی بات ہے، لاہور میں نانی کی رہائش گاہ کے قریب بازار سے اربعین کا جلوس نکلتا تھا ۔ (چہلم) کا یہ جلوس ایک عظیم الشان، روح پرور اور پُرعقیدت منظر ہوتا ۔ لاکھوں عزادار سیاہ لباس پہنے، غم و عقیدت کے جذبات کے ساتھ مرکزی جلوسوں میں شریک ہوتے ۔ جلوس کے راستے پر نوحہ خوانی، سینہ کوبی اور زنجیر زنی ہوتی ، سبیلیں، میڈیکل کیمپس اور نیاز کا اہتمام کیا جاتا ۔
مُجھے آج بھی وہ لمحہ یاد ہے کہ عقیدت مند تعزیے، ڈولی یا ذوالجناح کے نیچے سے تبرک یا دعا کی نیت سے گزرتے ۔ لوگ یہ عمل برکت، شفا یا حفاظت کی امید میں کرتے ۔ میں نے یہ مناظر چہلم کے جلوس کے دوران دیکھے۔ جب تعزیہ، ڈولی یا ذوالجناح جلوس کے بیچ پہنچتا، لوگ بڑی عقیدت اور احترام سے اس کے نیچے سے گزرتے تھے۔ کچھ لوگ دعا مانگتے، کچھ اپنے بچوں کو وہاں سے گزار کر ان کے لیے خیروعافیت اور برکت کی درخواست کرتے۔ اس سارے عمل میں خاموش عقیدت، اور ایک خاص روحانی فضا محسوس ہوتی تھی—جیسے ہر فرد دل کی گہرائی سے کربلا کے غم اور اس کے پیغام سے جڑ رہا ہو۔ فضا میں کہیں کہیں سوگواری میں ڈوبے نوحے سنائی دیتے ,,گھبرائے گی زینب،، اور
,,یارب کوئی معصومہ زنداں میں نہ تنہا ہو،،,
اس وقت شیعہ سُنی منافرت کبھی سنی نہ دیکھی ۔ سب ہی غمِ حسین کو اپنے اپنے طریقے سے محسوس کرتے۔
خواتین اپنے گھروں کی بالکونیوں، کھڑکیوں سے بھی یہ مناظر دیکھتیں۔
جلوس سے ایک طرف ہٹ کر خواتین بھی ہلکے ہلکے”لبیک یا حسینؑ” کی صدائیں دیتیں ۔ بچے اور بوڑھے بھی اس غم میں برابر شریک ہوتے ۔
اس جلوس میں تعزیے ، ڈولی، علم اور تابوت کے ساتھ ذوالجناح بھی ہوتا تھا ۔
سب جانتے ہیں کہ عزاداری کے جلوس میں یہ سب چیزیں بطور علامت پیش کی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر *ڈولی* تعزیتی جلوس میں حضرت بی بی سکینہ (سلام اللہ علیہا) یا اہلِ بیت خواتین کی اسیری اور مصیبت کی یادگار کے طور پر نکالی جاتی ہے، اس سے اُن کی مظلومیت، قافلہ شام اور گھر سے محرومی کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ علامتی شبیہہ ہے، جس میں عموماً چھوٹی نقلی پالکی یا جھولا ہوتا ہے، جسے عزادار خواتین و مرد احترام و عقیدت سے جلوس میں شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح تمام چیزیں علامتی طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ یہ سب اشیاء کربلا کے شہداء کے غم اور اہلِ بیت کی قربانی کی یاد دلانے کے لیے بطور علامت اور روایت شامل کی جاتی ہیں۔
چہلم یعنی اربعین، امام حسین علیہ السلام اور ان کے وفادار ساتھیوں کی عظیم قربانی کے چالیسویں روز کی یادگار ہے۔ یہ دن ہر سال ۲۰ صفر کو منایا جاتا ہے اور کربلا کی شہادت سے جڑے عظیم پیغام کو تازہ کرتا ہے۔اربعین ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امام حسینؑ نے کربلا کے میدان میں ظلم، جبر اور باطل کے مقابل خودداری، انصاف اور حق کی خاطر سر کٹایا، مگر حق کے سامنے کبھی جھکنے کو تیار نہ ہوئے۔ ان کی شہادت نے پوری انسانیت کو یہ درس دیا کہ ظلم کے خلاف اٹھنا، صبر، ایثار اور اصولوں پر ڈٹ جانا، انسان کا سب سے بلند کردار ہے۔ امام حسینؑ کا یہ پیغام صرف ایک قوم یا مذہب کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے مظلوموں اور انسانیت کے لیے ہے۔ چہلم کی اصل روح یہی پیغام ہے۔ جلسے جلوس اور علامتی شبیہہ ثانوی باتیں ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ ہم آج کے دور میں رہتے ہوئے اس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے، بعض اوقات ذاکرین اصل پیغام یعنی امام حسینؑ کی حق گوئی، صبر، ایثار اور انسانیت کے سبق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اس کے بجائے جلسوں میں بے بنیاد قصے، مبالغے یا فرقہ وارانہ باتیں بیان کرتے ہیں۔ کچھ ذاکرین سننے والوں کے جذبات ابھارنے کے لیے حقیقت سے ہٹ کر کہانیاں سناتے ہیں، جس سے اصل مقصد یعنی معاشرتی اصلاح، اتحاد و برداشت اور حق کی حمایت پیچھے رہ جاتی ہے۔ اس طرح اصل روح اور کربلا کا جامع پیغام عقیدت مندوں تک صحیح طور پر نہیں پہنچ پاتا۔
میری نظر میں واقعہ کربلا ظلم کے سامنے نہ جھکنا،انسانیت کی تاریخ کا سب سے عظیم سبق ہے۔ حق اور عدل کے لئے آواز بلند کرنا، اور محبت رواداری اور انسانیت کی خدمت کی مثال قائم کرنا۔ یہ قربانی، حق گوئی، صبر، ایثار اور انصاف کی انتہا ہے۔ امام حسینؑ کی جدوجہد صرف مذہبی نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف ہر انسان کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
کربلا ہمیں ثابت قدمی اور اعلیٰ اصولوں پر ڈٹ جانے کی عملی مثال فراہم کرتی ہے، چاہے نتائج کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ عام زندگی میں اس پیغام کو لاگو کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ:
– روزمرہ معاملات میں انصاف اور دیانت کو پہلی ترجیح دیں ۔
– ضرورت مندوں کی بے لوث مدد کریں
– ظلم، کرپشن یا زیادتی دیکھیں تو خاموش نہ رہیں، اور عدل و سچائی کا ساتھ دیں۔
میں اس سب پر مزید کچھ نہیں کہوں گی سواۓ اس کے کہ میرے آقا کریم کو جبرائیل کے زریعے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ میرا یہ نواسہ قتل کیا جائے گا ۔ اور آپ کی آنکھوں سے آنسو کسی معمولی بات پر نہیں برستے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن میں ہی حسین کی مظلومیت پر گریہ فرمایا۔
رمز قراں از حسین آموختیم
– زآتش او شعلہ ہااندوخیتم
– – ترجمہ-
– ہم نے قرآن کی رمز امام حسین سے سیکھی- اور انہی کی روشن کی ہوئی آگ سے شعلے جمع کرتے ہیں- (رموز بے خودی۔علامہ اقبال )