اقبال اور روحانیت

اقبال اور روحانیت

Spread the love

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سربکف

مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طُور سے آتی ہے بانگِ’ لاَ تَخَفْ‘

اقبال میرے اور میرے شوہر حسین صاحب کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ایسا نہیں کہ اقبال کے سب اشعار کے مطلب ہم پر واضح ہیں یا یہ کہ ہمیں ان اشعار کو سمجھنے کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی۔ ظاہر ہے جہاں پسندیدگی ہوتی ہے وہاں تھوڑی سی مزید کوشش کرکے اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچا جا سکتا ہے ۔

میں نے ساری عمر ایک کالج میں سائنس کی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے علم سے دوسروں کو مستفید کرنے کی غرض سے نزدیکی لائیبریری میں بلا معاوضہ علم کی تشنگی رکھنے والے نونہالوں کو سیراب کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ ایک دن ادارے کے منتظمین نے طلباء وطالبات کو بادشاہی مسجد کی سیر کرانے کا پروگرام بنایا ۔ ساتھ جانے کے لیے ناموں پر غور و خوض ہونے لگا۔ میری عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے کہا گیا کہ٫٫ مسز حسین آپ کیا کریں گی وہاں جا کر ٬٬ میں مسکرانے لگی ۔ بہر کیف وہ دن آ پہنچا اور ہم بادشاہی مسجد پہنچ گئے ۔

جیسے ہی وہاں سب مسجد کے مختلف حصے دیکھنے میں مصروف ہوئے ، میں وہاں سے نکل کر علامہ اقبال کے مزار کی طرف بڑھ گئی ۔ دوپہر کا وقت تھا۔ میں جب وہاں مزار کی لمبی راہداری پر پہنچی تو گارڈ نے مجھے روک لیا۔ میں جس جذب کے عالم میں آ رہی تھی مجھے گارڈ کا یوں ٹوکنا بہت ناگوار گزرا۔ میں حاضری کے لیے آئی تھی اور وہ مجھے آگے بڑھنے سے منع کر رہا تھا۔ جب میں نے مزید ایک قدم بڑھایا تو اس نے میرے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کر کے تلاشی دینے کا کہا۔ منزل قریب دیکھ کر میں ایک منٹ بھی ضائع کرنا نہ چاہتی تھی ۔ میں نے پورے کا پورا بیگ کندھے سے اتارا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گارڈ کو تھماتے ہوئے کہا

یہ لو رکھو اسے،، اور تیز تیز قدم آگے بڑھا دئیے ۔ مزار کا دروازہ کھلا تھا ، میں اندر داخل ہو گئی ۔اندر کوئی بھی اور موجود نہیں تھا۔ فاتحہ خوانی کے بعد میں وہیں ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔ حیرت انگیز طور پر اقبال کے اشعار میرے ذہن میں آنے لگے اور یہ وہ اشعار تھے جن کے مطلب مجھے سمجھ نہ آتے تھے۔ اب اپنی پوری تفہیم کے ساتھ مجھے یاد آتے چلے گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ کہ معنی کا دریا ہے جو بہہ رہا ہے ۔ اور اشعار کو سمجھنے میں مجھے کوئی دقت پیش نہیں آ رہی تھی ۔عجیب منظر تھا جیسے میں اکیلی نہیں تھی۔ میں نے اسی کیفیت میں حسین صاحب کو فون کیا ان سے اپنی کیفیات شیئر کیں۔ وہ لہک لہک کر اشعار پڑھتے،اور میں ان اشعار کے معنی یوں فر فر بتانے لگی جیسے ہمیشہ سے ہی اس سے آگاہ تھی۔ فون بند ہوا میں اک جذب کے عالم میں بیٹھی رہی۔ یوں جیسے مراقبے میں ۔ میری آنکھیں بند تھیں۔ اچانک مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اذان کی آواز بلند ہوئی ۔ ٫ اللہ اکبر، میں نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتی ہوں کہ مزار کے اندر ایک روشندان کی طرف ایک ہیولہ سا بڑھ رہا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہیولہ کہیں یا دھویں کا بادل ، روشندان کے راستے مزار سے باہر نکل گیا۔ یکدم مجھے یوں لگا جیسے مزار میں اندر بیٹھے رہنے کی میری خواہش دم توڑ گئی ہے، میزبان جیسے مجھے کہہ گیا کہ لو بھئی میں تو چلا نماز کے لیے۔ میں اٹھی، آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھیں ۔سست روی سے قدم مزار سے باہر بڑھانے لگی۔ گارڈ سے اپنا بیگ واپس لینے رکی تو وہ پنجابی میں بولا ٫٫ لگدا بابے نال بوت پیار اے ،، میں نے دل میں کہا ہاں اقبال مرشد میرے دل میں بستا ہے۔ مجھے یہاں آ کر جو قربت میسر آئ ، جو میزبانی عطا کی گئی، جو اشعار کے معنی کھول کے سامنے رکھ دیئے گئے ۔ یہ سب عام باتیں کب تھیں۔ میں ایک بھرپور وقت گزار کے جا رہی تھی۔ میں نے بیگ سے کچھ نوٹ نکال کے گارڈ کو تھمائے اور اپنے راستےپر ہو لی۔ میرے قدموں میں خماری تھی۔ اور دل لہک لہک کر ورد کر رہا تھا

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 89

No votes so far! Be the first to rate this post.