بڑھاپا خوبصورت ہے

Spread the love
میری بیٹی جب سے  اپنی سہیلی کے گھر سے ہو  کر آئ ہے ، بار بار اس بات پر حیرت کا اظہار کر رہی ہے کہ سہیلی کی دادی  اپنے گھر پر  پودوں کو پانی دیتے ہوئے گانا گنگنا  رہی تھیں ۔ اسے سمجھایا کہ  بھئی کیا ہو گیا ، اس میں کون سی  انہونی بات ہے۔ صرف یہ کہ وہ  خاتون  عمر رسیدہ ہیں  لہذا اپنی مرضی سے  خود کو  خوش کرنے کے لیے کچھ گنگنا لیا تو ایسا کون سا جرم ہو گیا۔  اس سے  جواب نہ بن پڑا تو وہ خاموش ہو گئی مگر  میں اپنے معاشرے کے اس رویے پر بہت شد و مد سے سوچنے لگی کہ ہماری یہ سوسائٹی بڑی عمر کے لوگوں کے لیے کچھ اور ڈیمانڈ کرتی ہے۔ ان کے لیے کچھ اور اصول  وضع کئے جاتے ہیں۔ یعنی  عمر  رسیدہ ہونے پر وہ قید تنہائی میں رہیں؟ ہر طرح کی تفریح سے کٹ جائیں ؟ کھانے پینے میں احتیاط کی آڑ میں انہیں پیٹ بھر کھانا نہ ملے۔ اور گھر کے کسی معاملے میں اگر اپنی رائے کا اظہار کر دیں تو انہیں صرف اللہ اللہ کرنے کے مشورے دئیے جائیں ۔

بے شک بڑھاپے کی اس ڈیپینڈنٹ زندگی سے خوف آتا ہے ۔  اور یہ بھی سچ ہے کہ اولاد ماں باپ کی جوانی کھا کر جوان ہوتی ہےاور  بڑھاپے میں بہت کم لوگ اپنے والدین کا خیال رکھ پاتے ہیں۔ اکثر پچاس کا ہندسہ عبور کرنے والے افراد سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ بس دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ گھر کے ایک کونے میں پڑے رہیں۔ اپنا کمرہ تک جوان اولاد یا ان کے بچوں کے لیے دان کر دیں۔  ارے بھئی ماں باپ تو پہلے ہی اپنا سب کچھ اپنی اولاد کی پڑھائیوں ، ان کی آسائشوں پر لگا چکے ہوتے ہیں۔ پھر بھی ان کے کمرے تک پر نظر لگا کے رکھی جاتی ہے کہ کب وہ اگلے جہان سدھاریں اور گھر کی سیٹنگ میں ان کا کمرہ بھی شامل ہو۔

اگر پنشن آ رہی ہو تو اس پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ جن کے نام کی پنشن ہوتی ہے ، وہ اسے اپنی مرضی سے خرچ تک نہیں کر سکتے۔ اولاد ایسے حساب لیتی ہے جیسے یہ  پیسے اپنی کمائی سے دئے ہوں۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بزرگ والدین کے مانگے بنا ان کے ہاتھ پر پیسے رکھے جائیں ۔ تاکہ انہیں اپنی ناتوانی کا احساس نہ ہو ۔
بے شک  بڑھتی عمر کے ساتھ  بہت سے  جسمانی اور ذہنی عارضے جڑ جاتے ہیں۔ 
برداشت کرنے میں کمی ہوتی جاتی ہے اور یوں  ذہنی اور جسمانی طور پر شدید  تھکاوٹ ہوتی چلی جاتی ہے۔  دل و دماغ میں اتنا کچھ گڈ مڈ  ہوتا ہے کہ چڑچڑے پن کا شکار  ہوتے چلے جاتے ہیں. یعنی ناک پر ہر وقت غصہ  دھرا رہتا ہے۔ 

بھئی آپ کے اس عمر کے   مسائل کوئی  دوسرا کیوں سمجھے گا۔ کیوں نہ خود پر تھوڑا ہوم ورک کر کے اس ایج کی خوبصورتی کو بڑھا لیں۔  قابل نفرت رویوں اور لہجوں کو تحمل،برداشت اور نرم مزاجی سے بدل لیں۔   شان سے  اور منفرد انداز میں بڑھاپا گزارنے کے لیے اپنا خیال رکھنا ہماری پہلی ترجیح  ہونی چاہیے ۔ اس کے لئے سال میں دو مرتبہ طبی معائنہ کرانا ضروری ہے ،تاکہ وجود تھکنے لگے تو کسی بڑی تبدیلی کا اندازہ ہو سکے۔ ہمارا یہ عمل  خود سے پیار کرنا ہے۔کیونکہ


جو آ کے نہ جاۓ وہ بڑھاپا دیکھا

جو جا کے نہ آۓ وہ جوانی دیکھی


بڑھتی عمر کے ساتھ کھانے پینے کی کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ کم نمک، کم چکنائی اور کم چینی استعمال  کریں۔  اپنی مرضی کا کوئی ایسا مشغلہ جاری رکھیں  جس سے آپ کو خوشی ملتی ہو ۔ جیسے کہ کتابیں پڑھنا،  حالات حاضرہ پر تبصرے ۔ باغبانی یا میوزک  وغیرہ ۔ یہاں حمیدہ شاہین کی نظم یاد آ  گئی ۔

زرا سا لڑکھڑائیں تو سہارے دوڑ کر آئیں

نئے اخبار لا کر دیں،پرانے گیت سنوائیں

بصارت کی رسائی میں پسندیدہ کتابیں ہوں

مہکتے سبز موسم ہوں، پرندے ہوں،شجر ہوں تو

,,*بڑھاپا خوبصورت ہے*،،

اس سب کے ساتھ ساتھ اس عمر میں ہلکی پھلکی ورزش  ازحد ضروری ہے ۔ یہ ورزشیں آپ کے اعضاء  کو باآسانی حرکت کرتے  رہنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ ۔ اگر باہر ممکن نہ ہو تو گھر کی چھت پر ہی واک کرتے ہوئے اپنے جسمانی اعضاء کو حرکت دیتے رہنا چاہیے ۔ دیکھا گیا ہے کہ اس عمر میں  جو اعضاء کچھ مدت کے لیے  حرکت میں نہیں لائے جاتے۔ بعد میں ان  کو حرکت دینا کافی  مشکل ہو جاتا ہے۔ 

یہ ہلکی پھلکی ورزشیں کمر درد، فروزن شولڈر ، ٹانگوں ،بازووں کی چستی کے لئے بہترین ثابت ہوں گی۔  اس کے ساتھ ساتھ نماز اور اذکار کا اہتمام بھی ذہنی و جسمانی طمانیت اور سکون کا باعث بنتا ہے۔ تو آئیے منفی رحجانات ، غصے اور چڑچڑے پن سے نجات پا کر بڑھاپے کو بصیرت  اور حکمت سے مزین  کریں اور  اللہ تعالیٰ سے خاص  نعمت بزرگی،اور تندرستی مانگتے رہیں۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 183

No votes so far! Be the first to rate this post.