سفر مدینہ: امی ابو کی محبت کا منفرد سفر
امی ابو میں مثالی محبت تھی۔ میں نے کبھی انہیں عام میاں بیوی کی طرح لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ نہ صرف بچپن بلکہ سب بچوں کے جوان ہونے اور ان کی شادیاں کر دینے تک میں بھی ذہن کے پردے میں کوئی یاد ایسی نہیں جو والدین کے کسی اختلاف کو ظاہر کرے۔ مست ملنگ سے لوگ تھے۔ باہمی افہام وتفہیم سے اپنے بچوں کے رشتے طے کر کے ان کے گھر بساۓ۔
مجھے یاد ہے بچپن میں والدین اکثر اولیاء کرام کے مزارات پر فاتحہ خوانی کے لیے جایا کرتے تھے۔ اور اکٹر اوقات اپنی گفتگو میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دینے کی تمنا کا اظہار کرتے۔ ریڈیو اور پی ٹی وی کا زمانہ تھا۔ اکٹر نعت شریف لگی ہوتی تو جھوم جھوم جاتے۔ ۔ میرے کانوں میں آج بھی وہ آواز گونجتی ہے۔
,,شہنشاہِ حبیبا مدینے دیا
خیر منگنا ہاں میں تیرے دربار توں،،انتہائی پر سوز آواز میں جب نعت خواں کے منہ سے یہ لفظ ادا ہوتے۔ ۔
,,وقتِ آخر مدینے جے میں پہنچ جاں
روح میرے جسم نوں چھوڑ جاوے جدوں
تسی میرا جنازہ میرے ساتھیو
لے کے لنگنا مدینے دے بازار توں،،
میں نے کئی بار دیکھا کہ امی کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہنے لگتے۔ مدینے جانے کی آرزو زور پکڑنے لگتی۔ایسے وقت معلوم نہیں ان کی کیا کیفیات ہوتی تھیں۔کہ نعت شریف کے ختم ہونے کے بعد بھی ان کے ہونٹوں پہ انہی الفاظ کا ورد رہتا۔ آخر کار اللہ نے ان کی سن لی اور بلاوا آ گیا۔ حج پر جانے کی نوید سنا دی گئی ۔ دونوں بہت خوش تھے۔ جانے سے پہلے سب رشتے داروں کی گھر پہ ضیافت کی ۔ جو نہ آ سکے ان کے ہاں خود گئے ۔
پتہ نہیں کیا بات تھی کہ اس دوران ابو اکثر اپنے آنسو صاف کرتے نظر آتے ۔ امی مذاق میں کہتیں۔ ٫٫لوجی برسوں کی خواہش پوری ہونے جا رہی مگر خدا جانے تمہارے ابو کے ایسے کون سے آنسو ہیں جو تھمنے میں ہی نہیں آ رہے۔ ،، اور ہوائی اڈے جاتے وقت تک ابو کا یہی حال رہا۔ بہت افسردہ، غمگین۔اس کے برعکس امی بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔ چہرہ پھولوں کی طرح شاداب، تروتازہ۔
حج کا فریضہ بخیر و خوبی ادا ہو گیا۔سننے میں آیا کہ اب مدینے میں ہیں اور کچھ ہی دنوں میں واپسی ہو جاے گی۔ اور واقعی کچھ دنوں کے بعد واپسی ہوئی مگر دونوں کی نہیں ، ایک کی۔ ابو تنہا لوٹے، امی نے ادھر ہی بسیرا کر لیا۔
روح میرے جسم نوں چھوڑ جاوے جدوں ۔۔۔,,تسی میرا جنازہ میرے ساتھیو
لے کے لنگنا مدینے دے بازار توں
امی کی خواہش پوری ہو چکی تھی ۔ پینتالیس سال کی عمر میں وہ اس جہان سے کوچ کر گئیں اور مدینے کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ مگر ابوجانے سے پہلے کیوں اتنے افسردہ تھے؟ ان کی آنکھیں بار بار نم کیوں ہوتی تھیں؟اس کا عقدہ یوں کھلا کہ ایک دن ابو حج کے سفر کی باتیں بتا رہے تھے تب انہوں نے یہ راز کھولا کہ روانگی سے قبل ان کو خواب میں اشارہ ملا تھا کہ دونوں میاں بیوی میں سے ایک واپس لوٹے گا۔ ابو جو روانگی کے وقت بار بار رو رہے تھے ،وہ شائد یہ توقع کر رہے تھے کہ میں اپنے بیوی بچوں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ رہا ہوں۔ مگر جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت امی کے نصیب میں لکھی تھی۔ محبوب بیوی جب وہاں بس گئ تو ابو کو ایک تڑپ،ایک لگن سی لگ گئ ۔ امی کے بعد جب تک حیات رہے، ہر سال آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضری دیتے اور جنت البقیع کے قبرستان میں بیٹھے مرحومہ بیوی سے باتیں کرتے رہتے۔۔ اور پھر ابو نے ہمیں بتایا کہ , میں اسے کہہ آیا ہوں کہ بس اب نہیں آؤں گا ۔،، اور وہ واقعی پھر مدینہ نہیں گئے کیونکہ پاکستان میں قبر کی مٹی انہیں بلا رہی تھی۔
وہ موج حوادث کا تھپیڑا نہ رہا
کشتی وہ ہوئی غرق وہ بیڑا نہ رہا
سارے جھگڑے تھے زندگی کے انیس
جب ہم نہ رہے تو کچھ بکھیڑا نہ رہا