مرد کھانے کے ساتھ کھانے کی تعریف کو بھی کھاجاتا ھے

مرد کھانے کے ساتھ کھانے کی تعریف کو بھی کھا جاتا ھے

Spread the love

رات ہم ایک دعوت پر مدعو تھے۔ کھانا واجبی سا تھا مگر واپسی پر میرے شوہر کھانے کی بہت تعریف کر رہے تھے ۔
, بھابھی کے ہاتھ میں جادو ہے۔ کیا کمال کھانا بناتی ہیں۔،،
میں نے شکوہ کناں آنکھوں سے انہیں دیکھا تو فوراً ہی بولے ۔
٫٫ ہاں بھئی تم بھی سیکھ لو کچھ اچھا بنانا۔،، میں نے اثبات میں سر ہلانا ہی مناسب سمجھا کیونکہ فی الحال میں کسی بحث کے موڈ میں نہ تھی۔ شادی سے پہلے میرے ہاتھ کا بنا کھانا سب کو بہت پسند آتا تھا۔ جب گھر والے تعریف کرتے تو مزید اچھا کھانا بنانے کی آرزو جاگتی۔ سچ ہے زرا سی تعریف آپ کے کام کا معیار کتنا بڑھا دیتی ہے۔ آپ کام کو بوجھ سمجھ کر نہیں کرتے ۔ پیار اور توجہ کیسے پیارے ہتھیار ہیں جو کسی کو ایسا پراعتماد بنا دیتے ہیں۔ ایک دن شوہر نامدار کا دل پلاؤ اور قورمہ کھانے کو چاہنے لگا۔ میں نے بڑے دل سے، محبت سے پلاؤ تیار کیا۔ سارے گھر میں خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ سارے لوازمات کے ساتھ کھانا رکھا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کھانا تیار کرنے میں محنت لگتی ہے، انسان تھک جاتا ہے۔ جسم اور کپڑوں میں لہسن پیاز کی بساند بھی بس جاتی ہے۔ مگر پھر بھی گھر والوں کے لیے یہ سب کر کے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ پلاؤ کی خوشبو سے پورا گھر مہک رہا تھا۔ آج تو شوہر تعریف کئے بنا رہ ہی نہیں سکیں گے۔یہ میرا خیال تھا ،کھانا پلیٹوں میں نکالا گیا۔ شوہر مزے لے کر کھانے لگے۔ جب کچھ وقت گزر گیا تو میں نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
،,, کیسا بنا ؟؟،، بولے
،,, زبردست بنا ہے پلاؤ ،،

ابھی میں خوش ہونے ہی والی تھی کہ بولے۔ ,,, زبردست کیوں نہ بنتا؟ تمہیں پتا ہے اس کے چاول میں ڈھونڈ
کر اچھی کوالٹی کے لایا تھا۔ اور گوشت جس کا قورمہ بنا ہے ، قصاب سے خاص کٹوا کر لایا تھا۔،،میں حیران ہو کے دیکھے گئ ۔ مگر وہ زور وشور سے اپنی بات کہہ کے پھر کھانے میں مشغول ہو چکے تھے۔ کبھی کبھار جو کچھ کہہ دیتی تو اس پر ارشاد ہوتا کہ تم ہی کو سننے کی تمنا تھی ورنہ میں تو چپ کر کے کھا رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس رویے نے میرے دل کو روگ لگا دیا۔ ایک دن کالی مرچ کی چکن کڑاہی بنائی خیال آیا کہ اس کے ساتھ نرم نرم تلوں والے روغنی نان بھی تیار کر لیتی ہوں۔ کھانے کا مزا دوبالا ہو جاے گا۔

یقیناً یہ ایک محنت طلب کام تھا ۔ سچ مچ جب نان تیار ہو گئے تو میں نے خود کو تسلی دی کہ آج تو بس واہ واہ ہو جانی ہے۔ مگر یہ کیا! پہلا نوالہ لیتے ہی اپنی تعریف میں رطب اللسان ہونے لگے۔ وہی کہ ،,,چکن کی بوٹی دیکھو کیا ایک سے سائز کی بنوا کر لایا ہوں اور نان کے اوپر جو تل سجے ہیں یہ صاف ستھرے ڈھونڈنے کے لیے کئ دکانیں پھرا ہوں۔ ،، اسی طرح کئ بار کھانے پر ہاتھ صاف کرتے یہ کہیں گے ,, پانی کا مزا آ گیا ۔،، میں سوچتی،
,,ہاں یہ پانی آپ جو پورچ سے یہاں تک نکال کے لاۓ تھے،، اسی طرح چائے بھی اچھی بناؤں تو کریڈٹ خود لے لیتے کہ ,,دودھ فلاں دکان سے لایا ہوں نا بھئ ۔اسی لیے چائے بھی اعلیٰ ہے۔،، اف ایسی تعریف سننے سے بہتر ہے کہ صبر کر لیا جائے ۔ ایک دن لطیفہ سنانے لگے کہ,, رضیہ کی ساس نے اس سے پوچھا کہ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تمہیں کھانا بنانا نہیں آتا. رضیہ بولی ، امی جی میں نے آپ کو سرپرائز دینا تھا۔،، پھر خود ہی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگتے۔ گویا مجھے ہی تنگ کرنے کو لطیفہ گھڑا گیا تھا۔

بظاہر یہ عام سی باتیں تھیں مگر میرے دل پر گھونسے سے پڑتے۔جب شکائتیں زیادہ ہونے لگتیں تو میں دو تین دن کے لیے اپنے میکے چلی جاتی۔ یہ بھی مسئلے کا حل نہیں تھا۔ پھر میں نے نئے انداز میں سوچنا شروع کر دیا کہ جب کھانے کے دوران کسی اور کے بنائے کھانے کی تعریف کرتے، میں کھانا ہی سامنے سے اٹھا لیتی کہ آب وہیں سے کھائیں جا کر۔امی نے سمجھایا کہ جس طرح عورت کو روز پکا پکا کر اپنے ہاتھ کا پکا کھانا کبھی نہیں بھی اچھا لگتا ایسے ہی مرد بھی کبھی ایک ہاتھ کا پکا کھا کھا کے اکتا جاتا ہے۔

جب کچھ دنوں کے لیے میکے سے ہو آؤ تو اسی ہاتھ کا پکا اچھا لگنے لگے گا۔ خیر یہ سب وہ حربے تھے جو میں چار و ناچار تعریف سننے کے لیے آزماتی رہی لیکن سب بے سود۔۔پھر ایک دن کسی اللہ والے کی باتیں سنیں جو سمجھا رہے تھے کہ ان چھوٹے چھوٹے دکھوں کو پالنے کی بجائے بڑے دکھوں پر توجہ دینا سیکھیں۔شوہر کی رضا چاہنے کی بجائے اللہ کی رضا کے لیے سب کام کریں۔اور اپنی بہترین کوشش کر کے یقین رکھیں کہ آپ کی کاوش اللہ کی نگاہ میں ہے ان شاءاللہ ۔ یہ الفاظ تھے یا میرے جلے دل کے زخموں پرجیسے کسی نے مرہم رکھ دیا ہو ۔ بس پھر تو میں شوہر کے اس رویے سے بے نیاز سی ہوتی گئی ۔ مجھے ان کی تعریف وتوصیف کی ضرورت نہ رہی۔ کیونکہ میں نے ان کی باتوں کو دل پر لینا چھوڑ دیا تھا۔دوسروں کو خوش کرنے میں انسان کھپ جاتا ہے اور توقعات کا یہ پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں ہوتا ہے۔

یہ پتہ نہیں کس نے اڑا دی کہ شوہر کے دل تک راستہ معدے سے ہو کر جاتا ہے تب سے بیویاں بیچاری ہلکان ہوئی رہتی ہیں۔ویسے بھی مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ تعریف کر بھی دیں گے تو کون سا مجھے تمغہ امتیاز مل جانا ہے ۔ کچھ ہی دنوں میں کرشمہ ہو گیا۔ میں نے بے نیازی برتنی شروع کی تو ادھر احساس جاگ گیا۔ لقمہ منہ میں جاتے ہی سبحان اللہ ۔ ۔ ماشاءاللہ الحمدللہ کے الفاظ کے ساتھ مُجھے بھی بتانا نہ بھولتے کہ کھانا بہت ذائقے دار بنا ہے۔ بیوی کے بنائے کھانے کی تعریف کرنا جرم نہیں ہے۔ مرد کے چند توصیفی جملے بول دینے سے اس کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ یہ صرف میری نہیں ہر گھر کی کہانی ہے۔

آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم تیرے واسطے تیار ہوا کرتے تھے

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 69

No votes so far! Be the first to rate this post.