مرزا غالب لاہور میں

Spread the love

یک نفس ہر یک نفس جاتا ھے قسطِ عمر میں

حیف ھے اُن کو جو سمجھیں زندگانی مفت ھے

لاہور کے ایک محلے میں کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ چھینا جھپٹی، جھگڑا، گالی گلوج سب چل رہا تھا۔ ایک نے دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے گرا یا ، دوسرا بھی طیش کے عالم میں بولا ۔

,, تؤ ٹھہر زرا تجھے بتاتا ہوں,,اتنے میں دیکھا کہ ایک بزرگ بابا جی بچوں کے بالکل قریب آتے ہوئے کچھ یوں پڑھتے ہوے خراماں خراماں چلے آ رہےتھے۔

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے

ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے

بچوں نے حیران ہو کر انہیں دیکھا، وہ یہاں قرب و جوار میں رہنے والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔ زرا دیر کو ہی بچے بابا جی کو نظر انداز کر کے پھر سے تؤ تڑاق کر کےلڑنے لگے ۔ بابا جی انہیں دیکھتے ہوئے با آواز بلند گویا ہوئے ۔

ہر اک بات ہہ کہتے ہو تم کہ تؤ کیا یے

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

بچے اپنی لڑائی بھول بھال کے اس تجسس میں مبتلا ہو گئے کہ یہ کون بابا جی ہیں۔ ایک بچہ جو زیادہ ہوشیار تھا، اپنے لاہوری لہجے میں بولا۔۔۔ بزرگو کون ہیں جی آپ ؟ بابا جی شکوہ کناں آنکھوں سے بچوں کو دیکھتے ہوئے بولے

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

تمہی بتاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

یہ سنتے ہی بچوں میں جیسے کھچڑی سی پکنے لگی۔ ۔ کہ غالب نام کہیں سنا ہوا لگتا ہے۔ حامد بولا ,, میرے دادا جی اکثر اپنے ٹیپ ریکارڈر پر ایک کلام ,, میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں ،، سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ غالب کے کلام کا ترجمہ ہے۔ ایک بچہ شیخی بگھارتے ہوے بولا میرے دادا نے تو فلم بھی دیکھی ہے اس نام کی۔ ،،

٫٫ارے یہ وہی تو نہیں جن کی غزلیات ہماری اردو کی درسی کتاب میں شامل ہیں۔،، اختر خوشی اور جوش سے چیخا۔ وہ اردو زبان کا سب سے لائق طالب علم شمار ہوتا تھا۔یہ سن کے تمام بچے بابا جی کے قریب ہو گئے اور لگے پے در پے سوال کرنے۔ اختر پرجوش لہجے میں پوچھنے لگا۔ ,, بابا جی آپ ہی ہیں نا وہ شاعر،، بابا جی بھی پھر غالب تھے انہوں نے سر سے پاؤں تک اختر کا جائزہ لیا اور جارحانہ سے انداز میں بولے۔

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری

کچھ شاعری زریعہء عزت نہیں مجھے

یہ کہہ کر غالب ان ناہنجار بچوں سے بچ کر اٹھنے لگے مگر اختر پھر بول پڑا۔ ٫٫بابا جی یہ آپ کے اشعار میں سوال بہت ہوتے۔ جیسے

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

حامد نے بھی اختر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے حافظے سے ایک شعر نکال ہی لیا

ہؤے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اختر نے حامد کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور بولا ٫٫ بابا جی آپ تو امید کے، شوخی و ظرافت کے، حسن اور عشق کے شاعر ہیں، پھر آخر یہ کیسا درد ہے؟ اس سمے غالب کے چہرے پر پریشانی کے آثار ہویدا ہوۓ اور کہنے لگے

,,دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت ، کوئی ہمیں ستاۓ کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں رلاے کیوں ،،بچے سنجیدہ ہو کر بابا جی کی بات سننے لگے۔ خاص طور پراختر بابا جی کو بڑی عقیدت سے دیکھ رہا تھا اور چاہتا تھا کہ کچھ دیر یونہی ہمکلام رہا جائے ۔ کچھ بچے جو اس تمام گفتگو میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، اکتاہٹ کا اظہار کرنے لگے کہ یکدم ہی بابا جی بولے۔

یارب وہ نہ سمجھیے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

اختر بابا جی کے مقام و مرتبے سے واقف ہونے لگا تھا اس کے ذہن میں غالب کے کئی فلسفیانہ اشعار گونجنے لگے جن پر وہ سر دھنتا تھا۔

یہ مسائل تصوف، یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

اتنے میں کہیں سے ریڈیو بجنے کی آواز آئی ،گلوکار گا رہا تھا

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے۔

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔

گاڑی گزر گئ تھی۔کلام کی بازگشت باقی تھی کہ بابا جی جانے کے لیےاٹھے۔ اختر تو چاہتا تھا کہ وہ بابا جی کے ساتھ بیٹھا رہے، اشعار کے معنی کھلتے رہیں، مگر باباجی لہک لہک کر یہ پڑھتے ہوئے اسی رستے پر غائب ہو گئے جدھر سے آئے تھے

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 47

No votes so far! Be the first to rate this post.