ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

مرزا غالب :ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

Spread the love

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

مجھ سے برہنہ ہونے کے جتنے عیب تھے، ان سب کا داغ کفن نے ڈھانپ لیا، ورنہ میری حالت یہ تھی کہ کوئی بھی لباس پہن لیتا ، ہستی اور انسانیت کے لیے شرم اور ننگ و عار کا باعث تھا۔

برہنگی کا مطلب ہے اخلاقی محاسن اور انسانی شرف کے اوصاف سے خالی ہونا۔ لباس اس لیے پہنا جاتا ہے کہ انسان برہنہ نظر نہ آئے ۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ میں اعلیٰ اوصاف سے عاری ہونے کے باعث اپنے وجود یعنی ہستی اور انسانیت کے لیے باعث شرم ہوگیا۔ کوئی بھی لباس اختیار کرتا۔ برہنہ ہونے کے عیب چھپ نہ سکتے۔ زندگی اسی حالت میں گزر گئی۔ آخر موت آئی اور مجھے کفن پہنایا گیا تو اس سے وہ عیب جو قطعا نہیں چھپ سکتے تھے۔ جو زندگی میں شرفِ انسانیت سے محرومی کے باعث مجھے لگ، البتہ صرف برہنہ ہونے کا داغ کفن نے ڈھانپ لیا۔

اس شعر سے خیال قران مجید کی اس ایت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ جس میں فرمایا گیا: اے اولادِ آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کر دیا ، جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی دے دیں جو زیب و زینت کا ذریعہ ہیں۔ نیز پرہیز گاری کی راہ دکھا دی کہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.