فرحین کی شادی اور معاشرتی مسائل
فرحین کی شادی کی تیاریاں زورو شور سے چل رہی تھیں۔ وہ پڑوس میں رہتی تھی ۔اس کے گھر کی دیوار میرے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ جوان لڑکیوں والا گھر تھا، شام میں چھت پر اکٹر ہی ملاقات ہوجاتی۔ لڑکیاں بالیاں مل کر اسے چھیڑتیں، کبھی تو شرما کر بیر بہوٹی بن جاتی اور کبھی وہ خود بھی اس چھیڑ چھاڑ کا مزا لیتی۔فرحین کا رشتہ کئ سال پہلے اس کے والد نے اپنے دوست کے بیٹے سےطے کیا تھا۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ ان کی مالی پوزیشن بہت مضبوط تھی اور اس حوالے سے فرحین کئی بار اتراتی بھی تھی گو کہ درمیان کے کئ سال لڑکے والوں نے فرحین کے گھر والوں کی کوئی خیر خبر نہ رکھی، مگر آخر کار مراد پوری ہونے جا رہی تھی۔ امیر لوگ تھے اسی حساب سے نخرے، نزاکتیں بھی تھیں۔ فرحین بھی کبھی کبھی مذاق میں کہا کرتی کہ میں بھی سسرال جا کر شیخی بگھارا کروں گی کہ,, میں تو کانٹینینٹل کھانا ہی پسند کرتی ہوں۔ برینڈ کے علاؤہ کپڑا نہیں پہنتی۔ ،، پھر خود ہی قہقہہ لگا کر ہنس دیتی۔ شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے۔ گھر کی رونق میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ رشتہ دار، ہمسائے ایک ماہ پہلے ہی ڈھولک پہ گیت گانے کی تیاریوں میں لگے تھے کہ عام طور پر مہندی پہ لڑکے والوں اور لڑکی والوں کے درمیان گانے کا مقابلہ بھی ہوتا ہے ایک ماہ کے دوران کتنے ہی گیت سب سہیلیوں کو گا گا کر،سن سن کر رٹ گئے تھے جو ڈائری میں لکھے ہوئے تھے اور مہندی میں گائے جانے تھے ۔گانوں کے مقابلے کا اتنا ذکر تھا کہ لڑکیوں نے خالہ، پھوپھی،یہاں تک کہ دادی کو بھی ساتھ ملا لیا۔ وہ اپنا غرارہ سنبھالتی، مسکراتی جاتیں اور پوپلے منہ سے اپنے زمانے کے دکنی، حیدرآبادی گیت گانے لگتیں۔
٫٫چلے آؤ سیاں رنگیلے میں واری رے
چلے آؤ سیاں رنگیلے میں واری رے
سجن موہے تم بن بھاۓ نہ گجرا رے ،،
دادی کے منہ سے یہ لفظ کیا ادا ہوتے،شور کا ایک غلغلہ سا مچ جاتا۔ شب و روز گزرتے چلے گئے ۔
روز سکھیاں جمع ہو جاتیں، ابٹن ملا جاتا۔ خاندان کی بڑی بوڑھیاں فرحین کو مشوروں سے بھی نواز رہی ہوتیں۔
دونوں گھرانوں نے باہمی مشورے سے شہر کے بہترین ایونٹ پیلس میں مشترکہ مہندی کی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔مہندی کی تقریب شادی سے ایک دن پہلے تھی۔ بہترین سجاوٹ ، زرق برق لباس، جگمگاتی روشنیاں،چہروں پر خوشی۔ بار بی کیو کی خوشبوئیں ۔ ہر طرف رونق ہی رونق تھی۔ مہندی کی رسم ادا کر دی گئ تھی۔ کھانا کھاتے ہی دونوں طرف کی لڑکیوں نے ڈھولک سنبھال لی۔ گانے گائے جانے لگے، ساتھ ساتھ ہنسی مذاق بھی چل رہا تھا۔ کبھی لڑکی والوں کی طرف سے گانا آتا
٫٫میرے نیہر سے آج مجھے آیا یہ پیلا جوڑا،،
اور کبھی لڑکے والوں کی طرف سے با آواز بلند گایا جاتا
,,بنو تیرے بابا کی اونچی حویلی،بنو میں ڈھونڈتا چلا آیا،،
یوں فہقہوں کے طوفان میں لڑکیوں کا جوش بھی بڑھتا گیا۔ ڈھولکی کی تھاپ پرزور وشور سے تالیاں پیٹی جا رہی تھیں۔ بزرگ خواتین بھی اس سب سے نہ صرف لطف اندوز ہو رہی تھیں بلکہ اپنی اپنی ٹیموں کو گانے بتا بھی رہی تھیں۔
،,, آڑھا پاجامہ ریشم کا کمر بند سیاں کہاں گئے تھے،،
فرحین کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ کل وہ پیا دیس سدھارنے والی ہے، یہ تصور ہی بہت مسرور کن تھا ۔ دھنک رنگ چوڑیوں کی کھنک اور یہ حسین محفل جس میں وہ ملکہ بنی بیٹھی تھی۔ اپنی آنکھوں میں اپنے پیا کی صورت بسا کر لڑکی ویسے بھی حسین ہو جاتی ہے۔ محبت اس کے چہرے پر جگمگا رہی تھی۔
,,بلاؤ درزی، کٹاؤ جوڑا، دولھا کی اماں سے کہہ دینا،،
مہندی کی تقریب اپنے عروج پر تھی۔ اور مقابل ٹیم کو شکست دینے کا جذبہ بھی زوروں پر تھا۔ گانوں میں اب سسرالی رشتے داروں پر طنز شروع ہو گیا تھا۔ لڑکیاں ہنس رہی تھیں۔ہر طرف کھلکھلاہٹیں تھیں ۔ یہ گانے ماضی سے ہی اس تہذیب کا حصہ ہیں جن میں سسرالی رشتہ داروں پر نوک جھونک ہوتی ہے۔ چھیڑ چھاڑ ،دل لگی، ہنسی مذاق ہوتا ہے ۔ لڑکیوں کے گانے میں پہلے نند کا پھر بقیہ رشتوں کا ذکر ہوا اور جب باری ساس کی آئی تو۔۔۔۔۔تو ساس صاحبہ ہتھے سے اکھڑ گئیں۔ ان کا انداز ہی بدل گیا، منہ لال ہو گیا۔تھوڑی دیر پہلے جو مسکرا رہی تھیں اب جیسے غصے میں آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں ۔ اونچا اونچا بولنے لگیں تو فرحین کی والدہ کو معاملے کی نزاکت کا خیال ایا۔ ڈھولک خاموش ہو گئ مگر ہونے والی ساس کے گلے کی تاریں کھل گئیں۔ انہیں لگا کہ لڑکیوں نے ان کی بے عزتی کی ہے اور وہ اس بے عزتی کو معاف کرنے کی مرتکب نہیں ہوں گی۔ مردوں کو بھی سب معاملے کا علم ہو چکا تھا۔ فرحین کے والد نے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔ مگر بات تو بڑھتی چلی گئ۔ ایک دوسرے کو طعنے دیے جانے لگے یہاں تک کہ مہندی کے کباب ،تکہ پراٹھا پر اٹھنے والے خرچ کا بھی طعنہ دے دیا گیا جو لڑکے والوں نے اپنی خوشی اور رضامندی سے کیا تھا۔ تہذیب کے دائرے سے ہٹ کر ان گانوں میں کچھ نہیں تھا مگر پھر بھی بحث و تکرار طول پکڑنے لگی سمدھیانے کے مرد حضرات بھی بولنے لگے۔ ابھی جہاں رونقیں جلوہ افروز تھیں،وہ جگہ جنگ و جدل کا بازار معلوم ہونے لگی۔ لڑکے کی والدہ نے ببانگِ دہل اعلان فرما دیا کہ وہ کل بارات لے کر نہیں آئیں گے۔ یہ رشتہ ختم سمجھا جائے یہ سن کر فرحین کے والدین سکتے میں آ گئے ۔ ہر طرح کی منت سماجت کی۔ معافیاں مانگیں۔ مگر ان کا کہنا تھا جب شادی سے پہلے ساس کی عزت و تکریم کا خیال نہیں رکھا گیا تو بعد میں کیا ہو گا۔ انہیں بہت سمجھایا گیا کہ یہ صرف گیت ہیں جو اس تہذیب کا اس معاشرت کا حصہ ہیں ۔بات کو جتنا سنبھالنے کی کوشش کی، بات اتنی ہی بگڑتی چلی گئی ۔ رات کے اندھیرے سے دن کا اجالا پھوٹ پڑا۔
آج بارات کا دن تھا۔ کھانوں کے آرڈر دئے جا چکے تھے، گھر مہمانوں سے بھرا تھا۔ اور دولہا والے اپنی بات سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں تھےکہ وہ بارات نہیں لائیں گے۔ صبح سے دوپہر ہونے کو آئئ ۔ کھانا چونکہ اپنا پکوانا تھا سو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ منع کیا جائے یا ابھی کچھ وقت اور منت کر کےصورت حال کا جائزہ لیا جائے ۔فرحین کا چہرہ پیلے سوٹ میں کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح مرجھا گیا تھا۔ والدین نے اپنی سی کوششیں کر لیں۔ خاندان کے بڑوں نے پنچائتیں لگائیں۔ شام ڈھلنے لگی تو جو ایک موہوم سی امید تھی، وہ بھی دم توڑ گئ اور یوں ایک بے قصور لڑکی کو وقت کے جابروں نے پیروں تلے روند دیا۔
کانچ کی آغوش میں رہ کر بھی پتھر سے لڑا
نا امیدی کی فضا میں بھی مقدر سے لڑا